بڑھتے سائے‘ لمبی سانسیں اور سانسوں میں بھاپ
میں قبرستان میں بیٹھا رات کی تاریکی اور ویرانے میں کچھ بیٹھا پڑھ رہا تھا تو اچانک کچھ سائے میری طرف متوجہ ہوئے سائے تھے ‘ان میں لمبی لمبی سانسیں بھی تھیں لیکن ایک سایہ ایسا تھا جس میں سانسوں کے ساتھ ساتھ گرمائش اور بھاپ بھی تھی لیکن شعلے نہیں تھے لیکن میں اس طرف متوجہ نہ ہوا‘ احساس مجھے ضرور ہوا وہ تمام سائے میرے پیچھے مجھے گھیر کر بیٹھ گئے‘ احساس یہ بڑھا کہ وہ سائے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتے چلے جارہے ہیں اور کوئی تقریباً ساڑھے چار پونے پانچ گھنٹے کے بعد جب میں اٹھا اور میں کھڑا ہوا ‘اتنی دیر بیٹھنے سے یقیناً ٹانگیں دکھ رہی تھیں‘ کتنی دیر میںکھڑا اپنی ٹانگوں اور پنڈلیوں کو سہلاتا رہا ‘میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو دور تاحد نظر جنات ہی جنات ہیں‘ ہرایک نے اپنے مزاج‘ اپنی طبیعت اور اپنےقبیلے کے مطابق لباس پہنا ہوا تھا‘ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ہر جن کا اپنا لباس نہیں ہوتا اور ہر جن اپنی مرضی کا لباس پہن بھی نہیں سکتا جو باغی ہے‘ سرکش ہے اور اپنے قبیلے سے ٹوٹا ہوا ہے وہ چاہے جو لباس پہن لے لیکن بحیثیت جن وہ اپنا لباس خود نہیں پہن سکتا اسے اسی قبیلے کا لباس پہننا ہوگا جس میں وہ رہتا ہے‘
جیسے ہر محکمہ کی اپنی وردی ہوتی ہے اور اسی قبیلے کو ہی لے کر چلنا ہوگا‘ ہاں جن جب اپنی شکل بدل لیتا ہے تو اسی وقت اس کی حیثیت شکل صورت وہ پھر مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ اس وقت اس نے اپنی شکل بدلی ہوئی ہے۔
ہر جن ‘ہر قبیلے کااپنا لباس
ان سب نے اپنے ہی قبیلے کا لباس پہنا ہوا تھا‘ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے دور ایک جن پر نظر پڑی‘ وہ صرف تین افراد تھے اور ان تینوں نے مخصوص لباس پہناہوا تھا‘ اس بے شمار مجمع میں وہ صرف تین ہی تھے جنہیں میں ان کے لباس کی وجہ سے پہچان گیا اور وہ اپنے مخصوص لباس کی وجہ سے واقعی پہچانے گئے‘ وہ مخصوص لباس کیا تھا‘ وہ مخصوص جنات کیا تھے؟ اس کی میں تھوڑی سی وضاحت آپ سےکرتا ہوں۔
جنات کا اصلاحی قبیلہ
جنات کا ایک قبیلہ ایسا ہے جس کا کام صرف اور صرف جنات کی اصلاح ہے‘ ان کے مزاج اخلاق اور طبیعتوں کی درستگی اس کا فکر ہے‘ وہ قبیلہ حیرت انگیز طور پر ان سے لیتا کچھ نہیں بلکہ دیتا ہے اور ان کو نوازتا ہے لیکن ہروقت اس قبیلے کے لوگ جنات میں اصلاح اور تبلیغ کرتے رہتےہیں اورجناتی معاشرہ میں سچے مزاج سے اصلاح معاشرہ کا سچا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ جنات میں اکثریت سرکش اور ایسے جنات کی ہے جو دین سے‘ عقیدہ سے‘ ایمان سے ہٹے ہوئے ہیں اور ایسے جنات کی بہت اکثریت ہے‘ سچے ایمان والے‘ اخلاق والے اور اچھی طبیعت والے جنات بہت کم ہیں‘پھر ان کی ڈیوٹی ہے اور یہ باپ دادا سے نسل در نسل ڈیوٹی ہے کہ یہ اس شیطانی اور جناتی دنیا کو راہ راست پر لانے کے لیے ہر پل محنت کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں بہت ناگواریاں‘ دشمنیاں‘ رکاوٹیں‘ بندشیں اور تکالیف بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں لیکن یہ اپنے سچے جذبے سے کبھی دور نہیں ہوئے اور سچے جذبے کو ہمیشہ سچائی کے ساتھ لے کر چلتے رہے۔ میں نے ان تینوں کو دور سے اشارہ کیا کہ میرے قریب آجائیں‘ وہ دور بیٹھے تھے تمام مجمع نے میرے اشارہ پر انہیں عزت اور احترام سے جگہ دی‘ وہ میرے قریب آئے میں نے انہیں گلے لگایا ‘یقین جانیے ان کے گلے سے نور اور خوشبو پھوٹ رہی تھی حالانکہ جنات کی اکثریت اس نعمت سےمحروم ہے اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے سینے سے لگائے رکھوں‘ وہ تینوں بڑی عمر کے تھے اور ان کی بڑی عمر صدیوں پر محیط ہوتی ہے نہ کہ سالوں پر‘ لیکن ان میں ہر ایک ایسا تھا‘ جیسے پھول تھا ہر ایک ایسا تھا جیسے راحت اور رحمت ہو‘ ان کے من سے خوشیاں اور راحتیں ٹپک رہی تھیں‘ ان کو میں نے اپنے قریب بٹھایا وہ مسلسل اللہ کا ذکر کررہے تھے اور جب میں نے انہیں پوچھا کہ اللہ کا کیا ذکر کررہے ہیں۔
بدکار‘ لٹیرے‘ ڈاکوچور جنات سے واسطہ
کہنے لگے :ہم مسلسل استغفار کررہے ہیں اس کی وجہ پوچھی؟ تو کہنے لگے : ہمیں اکثر سرکش بدکار‘ لٹیرے‘ ڈاکو چور اور گندے کام کرنے والے جنات سے واسطہ پڑتا ہے جب ہم ان سے ملتے ہیں‘ ان سے باتیں کرتے ہیں‘ ان کے قریب بیٹھتے ہیں‘ انہیں اپنے قریب بٹھاتے ہیں‘ ان کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں‘ ان کی ظلمت اور نحوست ہمارے اندر داخل ہوتی ہے پھر اس کو ختم کرنے کے لیے ہمیں مسلسل استغفار کرنا پڑتاہے اور ہم مسلسل استغفار کرتے ہیں اور یہی استغفار ہمیںکام آتا ہے اور ان تین نیک جنات نےانوکھا انکشاف کیا‘ کہا اگر ہم استغفار نہ کریں تو پھر ان کی بری عادات اور بُرا مزاج اور ان کی سانسوں سے نکلنے والی ظلمت‘ نحوست اور جسم کے روئیں روئیںسے نکلنے والی گندی عادات کا اثر ہمارے اوپر پڑتا ہے یا تو ہمیں ان گندگی اورگناہوں کا تصور اور خیال آتا ہے یا پھر ہم عبادات‘ تسبیحات‘ ذکر اور اعمال سےد ور ہونا شروع ہوجاتے ہیں ہمیں فوراً سمجھ آتی ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے‘ یہ اس استغفار کی کمی سے ہوا ہے۔
خود میری اشد ترین ضرورت
میں جب بھی کوئی ذکر کرتا ہوں‘ تسبیحات کرتا ہوں‘ اعمال کرتا ہوں‘ قبرستان میں جاتا ہوں‘ جنات مجھے تلاش کرتے رہتےہیں پھر میرےقریب آکر بیٹھ جاتے ہیں اور جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو اس دعا میں شامل ہوتے ہیں اور اس دعا میں بھرپور متوجہ ہوتے ہیں‘ اصل ان کو وہ نشست چاہیے‘ صحبت چاہیے اور دعا کی قبولیت چاہیے‘ اس کے لیے وہ ہمیشہ تلاش کرتے رہتے ہیں اور جہاں کہیں میں اپنے معمولات‘ تسبیحات‘ ذکر اذکار میں بیٹھتا ہوں تو وہ تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور پہنچ کر اپنے ذکر اور تسبیحات میں شامل ہوجاتے ہیں یا پھر میرے ذکر میں جو میں کررہا تھا وہی ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو بھی انوارات‘ تجلیات‘ کیفیات ملتی ہیں جو انوارات‘ کیفیات‘ تجلیات مجھے میسر ہیں اور اس کا فائدہ اور نفع ہوتا ہے‘ خود مجھے بھی ہوتا ہے ان میں بعض نیک صالح اور پاکیزہ جذبہ رکھنے والے جنات ہوتے ہیں جن کے اپنے انورات‘ تجلیات ہوتی ہیں‘ ان کے انوارات اور تجلیات سے مجھے نفع اور استفادہ ہوتا ہے اور یہ نفع اور استفادہ خود اشد ترین میری بھی ضرورت ہے یعنی جہاں ان میں اکثریت برکت‘ فیض‘ دعائیں‘ آمین لے کر جاتے ہیں‘ ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مجھے دے کر بھی جاتے ہیں۔
لاعلم جنات
میں نے ان تینوں جنات سے سوال کیا‘ جو معاشرہ کی اصلاح یعنی جناتی معاشرہ کی اصلاح کیلئے آپ کوشش کررہے ہیں‘ آپ کو کبھی کوئی ایسا واقعہ دیکھنے سننے میں آیا ہو یا خود آپ کے ساتھ بیتا ہو کہ کسی جناتی دنیا نے آپ کے ساتھ بہت زیادہ ظلم کیا ہو‘ آپ نے انہیں خیر کی طرف بلایا ہو لیکن وہ آپ کو نقصان پہنچارہے ہوں‘ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری‘ ایک نہیں بے شمار واقعات اور تجربات ہماری زندگی میں آئے ہیں اور ان واقعات اور تجربات سے ہماری زندگی ان جنات سے بیزار نہیں ہوئی‘ نہ ہم ان سے دور ہوئے ہیں بلکہ ہمارے دل میں ان کی خیرخواہی‘ ہمدردی اور رواداری بڑھتی چلی گئی۔ میں نے ان کی بات میں سے بات کو آگے بڑھایا اور پوچھا کہ وہ کیسے؟کہنے لگے: دراصل وہ جنات لاعلم ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ روح روحانیت کیا ہے؟ انسان انسانیت کیا ہے؟ اور کسی کا احترام اور کسی کی محبت کیا ہے؟ انہیں کوئی خبر نہیں‘ بس وہ صرف اور صرف ایک چیز جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ مخلوق کو کسی طرح ہم زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں اور کسی طرح ان کو گھاٹا پہنچائیں اور کیسے ہوجائے کہ ان کو مشکلات اور پریشانیوں میں ہم ڈال دیں‘ بس ان کا یہی جذبہ ہوتا ہے اور ان کا یہی خیال ہوتا ہے‘ یہ جذبہ اور خیال ہروقت ان کے اندر رہتا ہے جس کی وجہ سے ان میں درندگی اور اخلاقی گراوٹ‘ بدکاری اور انسانیت اور جنات کے لیے مسلسل نقصان کی سوچیں ہوتی ہیں۔
جناتی جادو کا علاج ذکر الٰہی سے کرتے ہیں
حالانکہ ہم ان سے محبت پیار اور دل کی گہرائیوں سے باتیں کرتے ہیں لیکن انہیں یہ باتیں بعض اوقات سمجھ نہیں آتیں اور وہ مقابلہ پر اتر آتے ہیں‘ ایک نیک جن بولا کہ بعض اوقات وہ اپنا مقابلہ اپنے جادو کے ذریعے بھی ہمارے اوپر کرتے ہیں‘ اتنا تلخ اور سخت جادو کرتے ہیں اگر ہمارے پاس اس کا توڑ نہ ہوتا اور ہم ذکراللہ اور کلام الٰہی سے ہروقت اپنے اردگرد دیوار اور حصار قائم نہ رکھتے تو ان کا جادو ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ان کا جادو اتنا سخت ہوتا ہے لیکن وہ جادو گندا کالا اور بدبودار ہوتا ہے۔
ہر خیر کو ہمیشہ صبر اور حوصلہ چاہیے
وہ کہنے لگے ہم خود حیران ہیں کہ شیطانی چیزیں ان کے اندر اتنی پختہ اور راسخ ہوچکی ہیں ان کے اندر شیطانیت اتنی رگوں میں اور خون میں اتر گئی ہے کہ وہ خود ہیں ہی شیطان لیکن بڑے شیطان نے انہیں اور بڑا شیطان بنا دیا ہے لیکن ہم انہیں برداشت کرتے ہیں‘ ان میں سے بے شمار لوگ ہیں جن کی زندگیاں جن کے من‘ جن کے جذبے سوچیں وجدان احساسات طبیعت اور کیفیات بدلیں۔میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور مجھے احساس ہورہا تھا کہ ہر دور میں خیر کی چابیاں ہیں جو شر کے تالوں کو کھول اور توڑ دیتی ہیں لیکن ہر خیر کو ہمیشہ صبر حوصلہ چاہیے ہوتا ہے اور ہر خیر صبر حوصلہ اگر کرے گا تو وہ ہمیشہ کامیاب ہوگا اور ہمیشہ زندگی میں خوشیاں‘ خوشحالیاں‘ کامیابیاں پائے گا۔ وہ خیر اور حوصلہ ہم انسانوں کو بھی چاہیے ہوگا اور انسان اگر اس خیر اور حوصلے کو چھوڑ بیٹھیں گے تو ہرطرف شیطانی اور دجالی فتنوں کا راج اور عروج ہوگا۔
بدکار جنات نے نیک جنات کو غار میں بند کردیا
میں یہ باتیں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ان نیک جنات میں سے ایک جن بولا: ایک دفعہ ایسا ہوا کہ انہوں نے ہمیں ایک غار میں بند کردیا‘ وہ بہت طاقتور اورتعداد میں بہت زیادہ تھا اور بہت شریر تھے‘ ہم تینوں تھے ‘ساتھ ہمارے اور پانچ دوست بھی تھے اور غار بھی ایسی خطرناک تھی کہ جہاں کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا تھا اور اتنے بڑے بڑے پتھر آگے رکھ دئیے جن کو بڑی بڑی طاقتیں بھی نہ ہلاسکیں۔ ہمیں دو دن ہوگئے ہم نے پتھر ہٹانے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ وہ پتھر ایسے طاقتور تھے کہ ہم واقعی ان کو نہیں ہٹا سکتے تھے۔
پریشان تھے‘ اچانک ہمارے دل میں ایک خیال آیا کہ ہم میں سے ہر بندہ انفرادی ذکر دعا کررہا ہے اور اپنے معمولات وظائف تسبیحات کررہا ہے‘ کیوں نہ ہم مل کر اکٹھے پورے جوش جذبے پورے وجد اور وجدان سے اپنا ذکر کریں اور اللہ کی طاقت اور قوت کو متوجہ کریں پھر ہم مل بیٹھ کر خوب
ا سم ذات اللہ کاذکر کیا اورمل کر کیا‘ ایک طرف اندھیرا‘ بھوک اور سخت کالے جنات کا باہر پہرا کیونکہ وہ مسلسل پہرا دے رہے تھے کہ یہ باہر نہ نکلیں اور اگر باہر نکلتے تھے تو موت ‘اندر رہتے تھے تو موت۔ آخری سہارا اللہ کا ہی تھا ہم جب پورے وجد اور وجدان کے ساتھ اسم ذات اللہ کا ذکر کرنے لگے اس وجد اور وجدان میں ہمیں محسوس ہوا کہ غار کے اوپر سے چھوٹے چھوٹے پتھر گررہے ہیں ہم اللہ کا ذکر کررہے تھے اور غار کے سامنے بند پتھر تھے ان کو دیکھ رہے تھے اور تصور ہی تصور میں سوچ رہےتھے‘ یہ سب پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں ریزہ ریزہ ہوجائیں‘ یہ سب پتھر اتنے ریزہ ریزہ ہوں کہ ہمارے دشمن کو لگیں نہیں اور اس خوف سے بھاگ جائیں‘ دور ہوجائیں ہمارا پیچھا نہ کریں‘ ہمارے دل میں ان کی خیرخواہی بھی تھی اور ساتھ احساس بھی تھا بس تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک دم ایسے محسوس ہوا ایک ایک پتھر پھٹا اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوئے اور توپ کے گولے کی طرح پتھر باہر اڑنے لگے‘ ہم نے ایک شور سنا جیسے وہ شریرجنات بھاگ رہے ہیں‘ اسی طرح دوسرا ‘پھر تیسرا پھر تو پتھروں کی بارش ہوگئی‘ ایک ایک پتھر اڑ رہا تھا‘ ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا‘ ہمارا جذبہ وجدان اور شوق بڑھ رہا تھا اور اللہ کے نام پر یقین اللہ کے نام کی طاقت اور تاثیر بڑھتی چلی جارہی تھی اور ایسی بڑھی‘ ایسی بڑھی کہ ہمارے لیے تمام راستے کھل گئے ‘ہم اللہ کا ذکر کرتے ہوئے جب باہر نکلے تو ہم حیران ہوئے کہ وہ سب بھاگ چکے تھے‘ ان کا نام و نشان ہی نہیں تھا‘ ہرطرف پتھر بکھرے ہوئے تھے کہ جیسے آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی ہے‘ بڑی بڑی چٹانیں چھوٹے چھوٹے پتھروں کی مانند ایسے برسیں کہ وہ سب ہمارا راستہ چھوڑ گئے اور ہمارے لیے سچی راہیں کھل گئیں۔ میں حیرت سے ان کو دیکھ رہاتھا ان کی تکالیف پریشانیوں کو محسوس کررہا تھا مگر ان کے اندر سچے جذبے اور سچے ولولہ کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھے لیکن سچے جذبے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جنات کی سچی ہمدردی بھی تھی۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں